International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Saturday, April 26, 2008

کلا شن کوف نہیں قلم اعجاز احمد

گذشتہ دنوں صو بہ سر حد کے وزیر اعلی امیر حیدرر خان ہو تی نے کیا خوب بات کہی کہ ہم اپنی نئی نو جوان نسل کے ہا تھ میں بندوق اور کلاشن کوف کی جگہ کتابیں اور قلم دیں گے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبہ سر حد کی نو مُنتخب حکومت نے اپنے چند رو ز ہ اقتدار میں جتنے اقدامات کئے ہیں انکی مثال نہیں ملتی۔ ان اقدامات میں صوبہ سر حد میں نفرتوں کو ختم کر نے کے لئے بات چیت کا راستہ اختیار کر نا، لا قانونیت، ، انتہا پسندی ، دہشت گر دی کو ختم کر نے کے لئے اقدامات، انتہا پسندوں کے ساتھ صلح صفائی کاایک خو شگوارآ غاز، بیت اللہ مسعود کے ساتھ امن معا ہدہ ، صوفی محمد کی رہائی، امریکہ کے ساتھ تعلقات رکھتے وقت ملکی مفادات کو مد نظر رکھنا اور اسکے علاوہ ایسے بے تحا شا اقدامات ہیں جو انتہائی قابل تحسین ہیں۔صوبہ سر حد کے پسے ہوئے عوام موجودہ صوبائی حکومت سے یہ توقع کرتے ہیں کہ جتنا جلد ہو سکے وہ اُنکے مسائل حل کر نے کے لئے کو شاں رہیں گے۔ پختون قوم کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ یہ لوگ زیادہ تعلیم یا فتہ نہیں ہوتے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ لوگ دنیا کے ہر خطے میں سخت محنت اور مشقت والے کام کر رہے ہو تے ہیں۔ وہ معا شرہ کبھی بھی کا میابیوں اور کامرانیوں کو چھو نہیں سکتا جب تک وہ زیادہ تعلیم یا فتہ اور خواندہ نہ ہو۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ و طن عزیز میں خواندگی اور تعلیم کی شرح بُہت زیادہ کم ہے ، جسکی وجہ سے ہم ترقی کا وہ مقام حا صل نہیں کر سکے جسکی توقع کی جا تی تھی۔میں امریکہ، نیوزی لینڈ، آسٹریلیاء، جر منی، فرانس، بر طانیہ اور کنیڈا کی مثا لیں اور بات نہیں کر تا بلکہ میں اُن ممالک کامیابیوں اور کا مرا نیوں کا ذ کر کر تا ہوں جو ہمارے اڑوس پڑوس میں ہیں اور جو ہمارے ساتھ تقریباً ایک ہی وقت میںآزادی کی نعمت حا صل کر چکے ہیں۔یہ وہ ممالک ہیں جنہوں نے تعلیم اور افرادی قوت کی ٹریننگ اور تر بیت پر بھر پور توجہ دی جسکی وجہ سے ان ممالک کی سما جی اوراقتصادی حالت میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ مثلاً تھائی لینڈ کی شرح خواندگی 91فی صد ، اور فی کس جی ڈی پی 8 ہزار ڈالر، تائیوان کی شرح خواندگی97 فی صد اور فی کس جی ڈی پی 30 ہزار ڈالر، ملائیشیاءکی شرح خواندگی 91 فی صد اور فی کس جی ڈی پی 15 ہزار ڈالر، انڈو نیشیاءکی شرح خواندگی 91 فی صد اور فی کس جی ڈی پی 4ہزار ڈالر، چین اور پاکستان جو کہ تقریباً ایک وقت میں آزاد ہوئے تھے چین کی شرح خواندگی91 فی صد اور فی کس جی ڈی پی 5500 ڈالر ہے۔جبکہ اسکے بر عکس پاکستان کی شرح خواندگی40 فی صد جبکہ فی کس جی ڈی پی 2500 ڈا لر ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر ہم اقتصادی اور تعلیمی طو ر پراتنے کمزور کیوں ہیں؟۔اگر حالات اور واقعات کا بغور تجزیہ کیا جائے تو اسکی بُہت ساری وجو ہات ہیں مگر اس میں سب سے بڑی وجہ جہا لت، کم علمی اور تعلیم کے میدان میں پسماندگی شامل ہے۔ فی زمانہ وہ ممالک کامیابیوں اور کا مرانیوں کی منزلیںطے کرتے ہیں۔ جنہوں نے انسانی وسائل اور تعلیم کی ترویج پر محنت کی ہوتی ہے۔یہ بڑی حیرانگی کی بات ہے کہ پر ویز مشرف کے دور حکومت میں ہائیر ایجو کیشن پر ایک کثیر رقم خر چ ہوتی رہی مگر بد قسمتی سے مشرف حکومت نے ٹیکنیکل اینڈ وو کیشنل ایجو کیشن ، ایلیمنٹری ایجو کیشن اور بالخصوص پرائمری ایجو کیشن پر کوئی توجہ نہیں دی جسکی وجہ سے پاکستان قوموں کی برادری میں وہ مقام حا صل نہیں کر سکا جسکی توقع ملک کے پسے ہوئے عوام کر تے ہیں۔وفاقی حکومت نے سال 2006-7 میں تعلیم کے لئے ایک خطیر رقم مختص کی، مگر یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ اس بجٹ میں اُن مدوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی جو توجہ کی طالب اور مُستحق تھی۔حکومت نے سال 2007 میں وفاقی تعلیم کے لئے 24 ارب 25 کروڑ روپے مختص کئے تھے جس میں ہائیر ایجو کیشن کے لئے 19 ارب روپے، سیکنڈری ایجوکیشن کے لئے 3ارب روپے پرائمری ایجوکیشن کے لئے 2 ارب روپے جبکہ انتظا میہ کے لئے ایک ارب 55 کروڑ روپے مُختص کئے۔ اگر سال 2007 کے وفاقی بجٹ کو دیکھا جائے تو اس میں پرائمری اور سیکنڈری ایجو کیشن کے ساتھ یکساںبے انصافی کی گئی ہے۔نائیجیریا کے بعد پاکستان دوسرا بڑا ملک ہے جہاں پر بڑی تعداد میں بچے سکول نہیں جاتے۔ یو نیسکو کے مطابق ہر ملک کو اپنے جی ڈی پی کا 5 فی صد تعلیم پر خرچ کر نا چاہئے مگر بد قسمتی سے پاکستان اپنے جی ڈی پی کا 2.5فی صد تعلیمی مد پر خر چ کررہا ہے جو انتہائی کم ہے۔ حکومتی دعووں کے باوجود بھی بچوں کی ایک بڑی تعداد اس اٹیمی اور میزائیلی دور میں بھی سکول جانے سے سے قا صر ہیں۔ایک ماہر تعلیم کا کہنا ہے :Primary education is no doubt a cornerstone of Genearal education and to expect any success at secondry and higher levell with out a viable base in primary education is nothing but wish full thinking.اسکا مطلب یہ ہے کہ ہم اُ س وقت تک سیکینڈری اور ہائیر لیول ایجو کیشن میں ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتے جب تک ہمارے پرائمری نظام تعلیم میں کو تاہیاں موجود ہوں۔چند دن پہلے گورنمنٹ گرلزپرائمری سکول نمبر ٢ شین ڈند جانے کا اتفاق ہوا ۔ یہ سکول جو کہ صوابی شہر کے وسط میں واقع ہے دو کمروں پر مشتمل ہے۔ مگر بد قسمتی سے ان دوکمروں کے سکول میں 6 کلاسیں پڑ ھائی جاتی ہیں جب کہ اس سکول میں بچوں کی تعداد 250 سے لیکر 300 تک ہے۔سکول میں اتنا شور ہو تا ہے کہ کچھ سُنائی نہیں دیتا۔ سکول کی ہیڈ مسٹریس زیادہ شور کی وجہ سے ڈیپریشن اور کان کے امراض میں مبتلا ہوگئی ہے۔ اور آج کل اسلام آباد میں بیک وقت ماہر نفسیات اور ای این ٹی سپیسلسٹ سے علاج کر وارہی ہے۔ دونوں ڈا کٹروں نے سکول کی ہیڈ مسٹریس سے استدعا کی ہے کہ اُنکے دونوں امراض میں اُ س وقت تک بہتری نہیں آسکتی جب تک شور سے نہ بچا جائے۔ بہر حال وہ بے چاری کیا کر سکتی ہے جب پیٹ ہے تو کچھ تو کر نا ہی پڑے گا۔دو کمروں کے سکول میں شور سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔میری بذات خود وزیر اعلی صوبہ سر حد اور وزیر تعلیم سے استد عا ہے کہ اس سکول میں کم ازکم دو کمرے اور تعمیر کر وائے جائیں تاکہ جو بچے دھوپ میں بیٹھ کر پڑھتے اور بیمار ہو تے ہیں کم ازکم ملک اور قوم کے اُن نو نہال بچیوں کو دھوپ سے تو بچا یا جاسکے کیونکہ یہی بچے اور بچیاں ہمارے مستقبل کے معمار ہیں۔سابقہ حکومت نے تو وفاق اور چاروں صوبائی حکومتوں کے لئے تقریباً ٦٩ ارب روپے مُختص کئے تھے مگر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ صوابی کی ان سکول کی طر ح اکیسویں صدی میں ہمارے معصوم نو نہال دھوپ میں بیٹھ کر زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔مُجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ آخر وہ پیسے گئے کدھر۔میری وفاقی وزیر تعلیم پروفیسر احسن اقبال صاحب۔ صوبہ سر حد کے وزیر اعلی امیر حیدر خان ہوتی اور صوبہ سرحد کے وزیر تعلیم سے استدعا ہے کہ صوابی کے اس سکول کے ساتھ ساتھ دوسرے سکولوں میں ایسے کمرے بنائے جا ئیں اور ایسی تعلیمی پالیسی بنائی جائے تا کہ نہ تو کوئی دھوپ میں بیٹھ کر تعلیم حا صل کریں اور نہ والدین تنگ دستی اور مالی بد ھالی کی وجہ سے اپنے جگر گوشوں کو زیور تعلیم سے آراستہ نہ کر سکیں۔ہمیں ہائیر ایجوکیشن کی جگہ پرائمری، سیکنڈری ، ٹیکنیکل اور وو کیشنل ایجوکیشن کی طرف بھر پور توجہ دینی چاہئے تاکہ ہم بین لاقوامی برادری میں ایک با عزت مقام حا صل کر سکیں۔ آج کا دور تعلیم ، سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے اور وہ قومیں کبھی بھی عالمی سطح پر ایک مقام حا صل نہیں کر سکتیں جب تک اُنکی نئی نسل جدید زیور تعلیم سے آراستہ نہ ہوں۔

No comments: