International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Saturday, April 26, 2008

ججوں کی بحالی: ڈیڈ لائن کا مذاق اُڑانے پر زرداری کو شدید تنقید کا سامنا

اسلام آباد:اعلان مری کے 2/ دستخط کنندگان میں سے ایک آصف علی زرداری کو ججوں کی بحالی کیلئے 30/ دن کی ڈیڈ لائن کا مذاق اڑانے پر زبردست عوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ نواز شریف کیلئے قیامت کا لمحہ تیزی سے قریب آرہا ہے۔ حکومت نے جمعہ کو قومی اسمبلی کا اجلاس اعلان کردہ ڈیڈ لائن کے ختم ہونے سے 5/ روز قبل ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے تو ایسے میں سب کی نظریں میاں نواز شریف پر مرکوز ہیں ججوں کی بحالی کے حوالے سے اتحادیوں کا وعدہ پورا کر نے میں ناکامی پر نواز شریف کا ردعمل ان کے سیاسی مستقبل کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا اور اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ وہ اب تیریں گے یا ڈوب جائیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف نے پہلے ہی پارٹی رہنماؤں سے مستقبل کی حکمت عملی مرتب کرنے کے لئے مشاورت کا آغاز کردیا ہے 30/ اپریل وہ دن ہے جب انہیں یہ فیصلہ کر نا ہے کہ ن لیگ کے وزر اء کابینہ کے عہدے چھوڑیں گے یا زرداری کی زیر قیادت پیپلزپارٹی کی طرح حقیقت پسند بن جائیں گے۔ ن لیگ کے حلقوں سے متنازع اطلاعات باہر آرہی ہیں جو پہلے سے پیچیدہ صورتحال میں مزید الجھاؤ پیدا کررہی ہیں کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ نواز شریف وفاقی کابینہ سے اپنے و زراء کے استعفوں کے لئے تاریخ کا اعلان 30/ اپریل کو کرینگے جبکہ کچھ دیگر یہ کہتے ہیں کہ 30/اپریل کی ڈیڈ لائن پار کرلینے سے کچھ نہیں ہوگا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ن لیگ کی قیادت وزراء کے استعفوں کے لئے 10/ مئی کی تاریخ طے کرسکتے ہیں۔ کہا یہ جارہا ہے کہ اس طرح کے کسی اعلان میں آصف زرداری کو ججوں پر حکمت عملی دوبارہ غور کرنے کے لئے مزید 10/ دن دیئے جائیں گے۔ نواز لیگ کابینہ سے نکلنے کیلئے اتحاد میں رہنے کو غور کررہی ہے ن لیگ کے ایک بااثر نمائندہ قومی اسمبلی نے اس نمائندے کو بتایا کہ آصف علی زرداری کے ارادے مکمل طور پر پتہ چل جانے کے بعد نواز لیگ کیلئے ان پر مزید بھروسہ کرنا خودکشی کے مترادف ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ججوں کی بحالی کے حو الے سے کسی شرط کا منسلک کیا جانا جیسا کہ پیپلزپارٹی کی جانب سے کہا جا رہا ہے قطعی ناقابل قبول ہوگا اب تک دو نوں جماعتیں وفاقی حکومت کی تشکیل کے 30/ دن کے اندر قومی اسمبلی میں سادہ قرارداد کے ذریعہ 2/ نومبر کی عدلیہ کی بحالی کے مرحلے سے بہت دور ہیں۔ یوسف رضا گیلانی نے 25/ مارچ کو اپنا عہدہ سنبھالا، 31/ مارچ کو ان کی کابینہ کی تشکیل ہوئی اور یکم اپریل سے الٹی گنتی شروع ہوئی لیکن پیپلزپارٹی نے ابتداء ہی سے کنفیوژن پیدا کر نا شروع کردی جبکہ زرداری نے 30/ دن کی ڈیڈ لائن کا مذاق اڑایا جس پر انہوں نے خود اتفاق کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اعلان مری پر زرداری کے ردعمل نے ناصرف نواز لیگ کے اندر مایوسی پیدا کی بلکہ پیپلزپارٹی کے اندر بھی متعدد میں مایوسی پیدا ہوئی۔ پیپلزپارٹی کے ذرائع نے کہا ہے کہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری گزشتہ سال طاقتور غیر ملکی ضمانت کنندگان کے تحت صدر پرویز سے ڈیل کرکے خودساختہ جلاوطنی کے بعد ملک میں واپس آئے ہیں ایک سینئر تجزیہ نگار نے تبصرہ کیا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے زرداری کو دھل دھلا کر مسٹر کلین بننے میں این آر او کے ذریعہ مدد دی اس کے بدلے میں زرداری کا فرض بنتا ہے کہ جس بات پر انہوں نے اتفاق کیا تھا اس پر کام کریں اور وہ ایمانداری سے یہی کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اکرم شیخ نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں افسوس کا اظہار کیا کہ آصف زرداری نے معزز ججوں پر حملہ کیا پیپلزپارٹی کی جانب سے مجوزہ آئینی پیکیج پر انہوں نے کہا کہ وہ اسے این آر او بچاؤ پیکیج کہیں گے اٹارنی جنرل ملک قیوم کے تسلسل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہ نئی حکومت کے اٹارنی جنرل ہیں جس نے ملک قیوم کے ساتھ کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیو نکہ وہ ان سے کچھ کام لینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اٹارنی جنرل سوئٹزرلینڈ، اسپین اور لندن جا رہے ہیں اور ہر دن ہم مختلف کیسز خارج ہونے کی خبریں سن رہے ہیں۔ منہ پھٹ وکیل نے مزید کہا کہ وہ وہاں صرف ایک شخص، آصف علی زرداری، کیلئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پہلے حکومت نے پوری دنیا میں زرداری کے خلاف کرپشن کیس داخل کرانے اور مقدمات چلانے پر کافی روپیہ خرچ کیا اور اب اٹارنی جنرل حکومتی خرچے پر وہی کیسز خارج کرنے کیلئے جا رہے ہیں۔ اکرم شیخ کا یہ ماننا تھا کہ حکومت کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یہ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ آخر حکومت لوگوں کے صبر کو کیوں آزما رہی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ذرائع بھی زرداری پر انگلی اٹھا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں انہوں نے این آر او سے فائدے اٹھائے اور اب ایک شخص کی ضد نے ججوں کی بحالی کو روک دیا ہے جس کے باعث حکومتی اتحاد کو خطرہ ہے۔ جمعہ کے روز ججوں کی بحالی کی قرارداد پیش کئے جانے کے بغیر قومی اسمبلی کے اجلاس کا ملتوی ہونے کے امر نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اعلیٰ رہنماؤں کی پریشانی بڑھا دی ہے۔ پارٹی خود کو نہ اِدھر کی اور نہ اُدھر کی محسوس کر رہی ہے۔ گزشتہ رات آصف زرداری کی دبئی روانگی سے بھی پارٹی کو دھچکا لگا ہے جس کا یہ ماننا ہے کہ ان اہم ترین دنوں میں زرداری کو ججوں کی بحالی سے متعلق امور کو حتمی شکل دینے کیلئے ملک میں ہی ہونا چاہئے تھا۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے وہ یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ جمعہ کو دونوں اعلیٰ ترین رہنماؤں کی ملاقات ہوگی لیکن اس حقیقت کے باوجود کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے ججوں کی بحالی کے کام کو پورا کرنے کیلئے اپنی لندن روانگی ملتوی کر رکھی ہے۔ اس وقت نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز لندن میں ہیں اور اپنے آپریشن سے قبل اپنے شوہر سے ملنے کی منتظر ہیں۔ جمعہ کے روز جاوید ہاشمی نے مبینہ طور پر کراچی میں کہا کہ میاں نواز شریف لندن روانہ ہو رہے ہیں تاہم جب مسلم لیگ (ن) کے چیف اسٹاف سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں نواز شریف اور زرداری کے درمیان ملاقات کے بعد نواز لیگ کے سربراہ کی لندن روانگی ملتوی کردی گئی تھی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ذرائع اس بات کی پیشگوئی کر رہے ہیں کہ مسلم لیگ اور پی پی اتحاد برقرار رہنے کو خطرات کا سامنا ہے۔ اس ہی دوران پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اعلیٰ رہنماؤں اور کابینہ کے وزراء، چوہدری نثار علی خان اور احسن اقبال کی جانب سے صدر پرویز کے ساتھ وزیراعظم کے ہمراہ ایک ہی میز پر رات کا کھانا کھانے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب پارٹی نے صدر پرویز کیخلاف سخت موقف اختیار کیا ہوا ہے، مسلم لیگ (ن) کے وزراء صدر کے ساتھ اس ہی میز پر بیٹھ کر آخر کیسے کھانا کھا سکتے ہیں۔

No comments: