لاہو ر ۔ صدر ر مملکت جنرل (ر) پرویز مشرف نے کہا ہے کہ سابقہ حکومت کی پالیسیوں کو جاری نہ رکھنے اور انہیں تبدیل کرنے کے باعث ملک کو گڈ گورننس کے مسائل درپیش ہیں۔ پاکستان کو اندرونی خطرات لاحق ہیں جن سے بچنے کیلئے ماسٹر مائنڈ عسکریت پسندوں کا قلع قمع اور شمالی علاقہ جات میں طالبانائزیشن کے عمل کو روکنا اور بعض علاقوں میں کشیدگی کا خاتمہ کرنا ہے۔ ملک میں سیاسی استحکام پیدا کئے بغیر معاشی اہداف حاصل نہیں کئے جاسکتے۔انہوں نے کہا کہ گندم کا بحران بھی اندرونی سطح پر تقسیم و ترسیل کے نظام میں عدم توازن اور بد انتظامی کی وجہ سے وجود میں آیا ۔ سات سال کے عرصہ میں بجلی کا بحران اس لئے پیدا ہوا کہ مستقبل میں زرعی و کمرشل شعبہ کے پیداواری حجم میں دو سے تین گنا ہونے والے اضافہ کو مد نظر نہیں رکھا گیا تھا ۔ ان خیالا ت کا اطہار انہوں نے آج نیشنل مینجمنٹ کالج میں منعقدہ 88ویں نیشنل مینجمنٹ کورس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد مقبول، چیف سیکرٹری جاوید محمود، سابق گورنر سٹیٹ بینک عشرت حسین اور دیگر اعلی افسران بھی موجود تھے۔ صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان کو اندرونی خطرات لاحق ہیں جن سے بچنے کیلئے ماسٹر مائنڈ عسکریت پسندوں کا قلع قمع اور شمالی علاقوں میں طالبانائزیشن کے عمل کی روک تھام ہے۔ مذہبی انتہا پسند ملک میں تنظیم سازی کرکے عسکری سرگرمیوں میں ملوث ہیںجو نوجوانوں کو گمراہ کرکے انہیں خودکش حملوں کی ترغیب دیتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ مقامی حکومتوں کے نظام سے نچلی سطح تک اقتدار کی منتقلی کے مرحلہ کے باعث عام آدمی کا احساس محرومی ختم کرنے میں بھرپور معاونت ملی ہے جس سے علاقائی سطح تک معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ملک اس وقت آٹے، بجلی، لوڈ شیڈنگ کے بحران سے دوچار ہے جس کیلئے پالیسیوں کے تسلسل کو قائم رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ انہوںنے کہا کہ اداروں میں سول سروسز ریفارمز اور رول آف بزنس کے شعبوں میں توازن قائم کرکے عوامی فلاح وبہبود کے منصوبوں میں مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں جو صرف پالیسیوں کے تسلسل سے ممکن ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ ملک کو اس وقت سیکورٹی کے اندرونی خطرات لاحق ہیں جن سے نمٹنے کیلئے حکومت کو طویل المدتی پالیسی تشکیل دینی چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ گذشتہ چند سال کے دوران شمالی علاقوں میں عسکریت پسندی کا رحجان بڑھ رہا تھا جس پر قابو پانے کیلئے مذکورہ علاقوں میں آپریشن کئے گئے۔ انہوں نے کہاکہ پہاڑی علاقوں میں القاعدہ اور ازبک جنگجوؤں کے زور کو ختم کرنے کیلئے سوات آپریشن ناگزیر ہوگیا تھا جس کے بعد ان علاقوں میں حالات معمول پر آگئے ہیں مگر اب بھی کچھ مقامات پر کشیدگی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ازبکستان اور افغانستان سے دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں نے ملک میں داخل ہوکر تنظیم سازی کی۔ طالبان کا منظم نیٹ ورک دہشت گردوں کو تربیت اور سہولیات فراہم کررہا ہے جس کے تحت نوجوانوں کو گمراہ کرکے انہیں خودکش حملوں کی ترغیب دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں بھی طالبانائزیشن کے خاتمے کیلئے مربوط حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ دوسری جانب بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصر قدرتی وسائل کو نقصان پہنچانے سمیت انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں مگر ان کے بلاجواز ہتھکنڈوں کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے بلوچستان کی ترقی وخوشحالی کیلئے اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبے شروع کئے جس کے باعث وہاں کے عوام کو روزگار میسر آیا اور صوبہ میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوا۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کی ترجیحات میں قومی ترقی کلیدی کردار کی حامل ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہکومت نے جی ڈی پی کی شرح کو سات فیصد تک بڑھایا ، فی کس آمدنی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ریونیو کا حجم ایک کھرب سے 4کھرب کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شرح نمو بڑھنے سے ملک میں معاشی ترقی کی نئی راہیں ہموار ہوں گی۔ صدر مملکت نے کہاکہ 1999ء تک ملک کی جی ڈی پی کا حجم صرف 63ارب ڈالر تھا جو اب 160بلین ڈالر ہے۔ انہوں نے کہاکہ اسی طرح مالی خسارہ کو کم کرکے اور ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنا کر جی ڈی پی میں مزید اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ صدر پرویز مشرف نے کہا کہ گندم کا بحران بھی اندرونی سطح پر تقسیم و ترسیل کے نظام میں عدم توازن اور بد انتظامی کی وجہ سے وجود میں آیا، انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال ملک میں گندم کی پیداوار 23.5 ملین ٹن رہی جبکہ ملکی ضرورت 22 ملین ٹن ہے جبکہ کاشتکاروں سے 14ملین ٹن گندم خریدی گئی۔ انہوں نے کہا کہ زرعی ملک ہونے کے ناطے ملک میں زرعی اجناس کی پیداوار اور اس کے استعمال کے اعداد و شمار کا میکنزم تیار کرنا ہو گا تا کہ طلب اور رسد میں بگاڑ پیدا نہ ہو ۔ توانائی کے بحران کے بارے میں صدر مملکت نے کہا کہ 2001 ء میں ملک میں 4 ہزار میگا واٹ اضافی بجلی موجود تھی مگر صنعتی ، زرعی اور کمرشل شعبہ کے پیداواری حجم میں دو سے تین گنا اضافہ کے باعث طلب کی ضرورت کو محسوس نہ کرنے سے سات سال کے عرصہ میں ملک میں بجلی کا شدید بحران پیدا ہو گیا ۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ عرصہ کے دوران صرف کمرشل گھریلواور صنعتی شعبہ میں بجلی کی طلب میں 3 گنا اضافہ ہوا ہے ۔ انہوں نے توانائی کے حالیہ بدترین بحران سے عہدہ برآ ہونے کے لئے گیس، نیوکلیئر اور ہائروالیکٹرک کے طریقہ توانائی کو بروئے کار لانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سات سال کے عرصہ کے دوران حکومت نے پانی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے سبکزئی اور میرانی ڈیم کے منصوبے شروع کئے جبکہ منگلا ڈیم ریزنگ پراجیکٹ جون و جولائی تک مکمل ہو جائے گا ۔ انہوں نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو ملکی بقاء کے لئے ناگزیر قرار دیتے ہوئے رینی ، تھل اور کچھی کینال کے منصوبوں کو بھی فوری مکمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔ صدر پرویز مشرف نے انتظامی اداروں کے افسران پر زور دیا کہ وہ غربت، بیروز گاری، امن عامہ کی صورتحال برقار رکھنے ، معیشت کے استحکام اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لئے ہمہ جہتی ترقیاتی پالیسیوں و منصوبہ بندی کو یقینی بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے گزشتہ 8 سال کے دوران ملک میں سرمایہ کاری اور برآمدات میں اضافہ کی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنایا ہے اور امید ہے کہ ان پالیسیوں کو جاری رکھ کر بیروز گاری ، غرت کے خاتمے اور ملکے ترقی کو درپیش چیلنجز نے نمٹا جائے گا ۔ صدر مشرف نے کہا کہ حکومت نے تعلیم اور صحت کے بنیادی شعبوں کو خصوصی اہمیت دی ہے اور ان شعبوں کے بجٹ میں بھی گزشتہ چند سالوں کے دوران زبردست اضافہ کیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے تعلیمی اداروں میں معیاری تعلیم و تحقیق کی بدولت مہارت یافتہ افرادی قوت سامنے آئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کے اداروں کے قیام سے ہنر مند افراد کو روزگار میسر آیا ہے جس سے مقامی سطح پر صنعتوں کی ضروریات کو پورا کرنے میں بھی مدد ملی ہے ۔ صدر پرویز مشرف نے کہا کہ ملک میں جمہوری نظام بھرپور اٹنداز سے چل رہا ہے اور عام انتخابات کے بعد عوام کی منتخب کردہ مخلوط جمہوری حکومت نے اقتدار سنبھال لیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مثبت جمہوریت عمل معاشی استحکام کے لئے یرھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لہذا نٹی حکومت کو آپس کے اختلافات ختم کر کے ملک کے وسیع تر مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک و قوم کے بہترین مفاد میں باہمی مشاورت سے فیصلے کرنے چاہیں ۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ نو منتخب حکومت دہشت گردی، انتہا ، پسندی اور دیگر مسائل سے نمٹنے کے لئے اپنی تمام کاوشیں بروئے کار لائے گی ۔ ایک سوال کے جواب میں صدر مملکت نے کہا کہ ملک میں گندم کا قحط نہ ہے بلکہ عوام کو بد انتظامی کی وجہ سے گندم کے حصول میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ انہوں نے واضح کیا کہ ملک کی 70 فیصد آبادی دیہاتوں میں آباد ہے جن کو تندم ان کی ضرورت کے مطابق میسر ہے ۔ اٹنہوں نے کہا کہ شہری علاقوں میں غرت کے خاتمہ کے لوے بچت کارڈ سکیم متعارف کروائی گئی ہے اور نادرا کے اعداد و شمار کے مطابق شہرو ںمیں ساڑھے 3 کروڑ لوگوں نے بچت کارڈ حاصل کئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ملک میں سیاسی استحکام پیدا کئے بغیر معاشی اہداف حاصل نہیں کئے جاسکتے۔ حکومت کا کام شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا، ٹھوس پالیسیوں کے اجراء سے عوام کی فلاح وبہبود، ملک وقوم کی ترقی وخوشحالی کے منصوبوں کو جلد از جلد تکمیل، ملک کو اندرونی وبیرونی خطرات سے بچانا اور جمہوری اداروں میں پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنانا ہے تاکہ ملک نہ صرف معاشی طور رپ مضبوط ہو بلکہ اداروں میں گڈ گورننس کے عمل کی بھی بھرپور اصلاح ہوسکے۔ پاکستان میں گڈ گورننس کو دو بڑے مسائل کا سامنا ہے جن میں اداروں کی سطح پر عوام کی فلاح وببود کیلئے تشکیل دی جانے والی پالیسیوں پر عمل درآمد کافقدان اور گذشتہ حکومت کی اصلاحات وپالیسیوں کا عدم تسلسل اور ان کی تبدیلی ہے۔ اداروں میں پالیسیوں کے عدم تسلسل اور رول آف بزنس کو برقرار نہ رکھنے کی وجہ سے انفراسٹرکچر کے شعبہ کو نقصان پہنچتا ہے جس سے عام آدمی کی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment