International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Tuesday, April 29, 2008

ق لیگ کی قیادت چٹھہ‘ وٹو یا پیر پگاڑا کے سپرد کئے جانیکا امکان

اسلام آباد ذرائع نےبتایا ہے کہ سابق حکمراں جماعت مسلم لیگ (ق) میں اعلیٰ مرکزی قیادت سمیت کئی اہم تبدیلیاں بہت جلد متوقع ہیں۔ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مسلم لیگ (ق) کے کئی ارکان پارلیمان نے ایوان صدر سے رابطوں میں صدر پر زور دیا ہے کہ وہ جماعت کی قیادت میں تبدیلی کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ذرائع نے بتایا کہ پارٹی قیادت پنجاب کے بزرگ لیگی سیاستدان حامد ناصر چٹھہ، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں منظور احمد وٹو یا پیر پگارا کے سپرد کی جا سکتی ہے۔ذرائع نے بتایا کہ مسلم لیگ (ق) کے فیصلوں جن کے نتیجے میں سابق حکمراں جماعت کو 18 فروری کے الیکشن میں شکست ہوئی تو ایوان صدر سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ مرکز اور پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے اتحادی حکومتوں کے قیام سے ایوان صدر کو شدید دھچکا لگا تھا۔انہوں نے کہا کہ ایوان صدر اس نتیجے پر پہنچا کہ مسلم لیگ (ق) کے غلط فیصلوں کی وجہ سے رسوا کن شکست ہوئی۔اس لئے پارٹی قیادت کو تبدیل کیا جانا چاہئے۔مسلم لیگ (ق) کے کچھ رہنماؤں نے تصدیق کی کہ پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل سینیٹر مشاہد حسین سید جو پارٹی معاملات اور الیکشن سے متعلق دیگر اہم فیصلوں میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں کو بھی ہٹایا جا رہا ہے۔مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے ایک سابق وزیر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی خواہش کرتے ہوئے بتایا کہ 18 فروری کے الیکشن کے بعد دوسرے پارٹی رہنماؤں کی طرح مشاہد حسین کے ایوان صدر سے رابطوں کی حوصلہ شکنی کی گئی اور اب طاقت کے اس مرکز میں ان کا داخلہ تقریباً ممنوع ہو چکا ہے۔انہوں نے مزید کہا وہ (مشاہد) پارٹی معاملات میں دلچسپی نہیں لے رہے بلکہ ان کے ذاتی بیانات سے پارٹی کو خاصہ نقصان پہنچا ہے۔ سابق وزیر نے بتایا کہ مزید یہ ہے کہ چوہدری شجاعت حسین کی صحت اتنی خراب ہو گئی ہے کہ وہ پارٹی کو مؤثر انداز میں چلانے کے قابل نہیں رہے اور پارٹی سے تعلق رکھنے والے کچھ ارکان پارلیمان نے ایوان صدر سے شکایت کرتے ہوئے پارٹی قیادت کو تبدیل کرنے کی درخواست کی ہے۔جب دی نیوز نے مشاہد حسین سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ایوان صدر نے ان سے ناراضگی کا اظہار نہیں کیا تاہم کچھ طاقتور حلقوں کی طرف سے ان کے والد کے حوالے سے خفگی ظاہر کی گئی ہے۔انہوں نے اس تاثر کی بھی تردید کی کہ ان کے ایوان صدر داخلے پر کوئی پابندی ہے۔سینیٹر مشاہد حسین نےگفتگو میں کہا کہ” ایوان صدر نو گو ایریا نہیں ہے لیکن اب صدر کی حکمراں اتحاد کے ساتھ دوستی بڑھ گئی ہے اور پہلے کے مقابلے میں انکے ق لیگ سے تعلقات میں بڑی حد تک تبدیلی آ چکی ہے،میں نے جیو ٹی وی پر پابندی اور عدلیہ پر حملے سمیت بعض صدارتی اقدامات کی سرعام مخالفت کی تھی۔میری بیوی نےٹی وی پر پابندی کیخلاف احتجاج میں بھرپور حصہ لیا“ انہوں نے کہا کہ میں بنیادی طور پر صحافی ہوں اور کسی سے نہیں ڈرتا۔ایک سوال کے جواب میں مشاہد حسین نے کہا کہ لیڈر شپ اور ملازمت پیشہ ذہنیت میں فرق ہوتا ہے اور صدر کے کہنے کے باوجود چوہدری شجاعت نے پارٹی قیادت نہیں چھوڑینے مؤقف کیلئے ایوان صدر کے ترجمان میجر جنرل (ر) راشد قریشی سے رابطے کی بار بار کوشش کی مگر ان کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آیا۔

No comments: