گیما رے دھماکے سے خارج ہونے والی توانائی ا تنی شدید تھی اگر آس پاس کسی سیّارے پر زندگی موجود ہوتی تو وہ جل کر راکھ ہو جاتیخوش قسمتی سے یہ دھماکا زمین سے اتنی دور ہوا کہ جس کی شدت زمین تک پہنچتے پہنچتے ماند پڑ گئی ‘ناسا کے ماہرینِ فلکیات
واشنگٹن ۔ رات کے وقت اگرکسی طاقت ور دوربین سے آسمان کی طرف دیکھا جائے تو ہر طرف حیرت انگیز مناظر سے واسطہ پڑے گا، لیکن گذشتہ مہینے امریکی خلائی ادارے ناسا کے ماہرینِ فلکیات نے ایک ایسا منظر دیکھاجس نے انھیں دم بخود کر دیا۔ ناسا کے مصنوعی سیارے ’سوِفٹ‘پر نصب دوربین نے خلا میں ہونے والے ایک ایسے دھماکے کی تصاویر لیں جو کچھ دیر کے لیے زمین پر بغیر دوربین کے بھی دیکھا جا سکتا تھا۔ اس دھماکے میں عقل کو چکرا دینے والی بات یہ تھی کہ یہ کائنات کے دوسری طرف واقع ایک ایسی جگہ پر ہوا جہاں سے اس کی روشنی کو زمین تک پہنچتے پہنچتے ساڑھے سات ارب سال لگے۔واضح رہے کہ ہمارے نظامِ شمسی کی عمر تقریباً پانچ ارب سال ہے، گویا یہ دھماکا اس وقت پیش آیا تھا جب زمین تو کجا، سورج تک وجود میں نہیں آیا تھا۔یہ دھماکا کائنات کا وہ دور افتادہ ترین مظہر تھا جو بغیر دوربین کے دیکھا گیا۔ اگر آپ رات کے وقت شہر کی روشنیوں سے دور آسمان کو دیکھیں تو زیادہ سے زیادہ دور جو کہکشاں نظر آ سکتی ہے اس کا نام ایم33 ہے، جو زمین سے 29 لاکھ نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ روشنی وہاں سے تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے چلتے ہوئے 29 لاکھ برسوں میں زمین تک پہنچ پاتی ہے۔اگرچہ یہ فاصلہ زمینی اعتبار سے بہت زیادہ ہے، لیکن کائنات کی وسعت کے لحاظ سے کچھ بھی نہیں۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ مندرجہ بالا دھماکے کا فاصلہ اس سے ڈھائی ہزار گنا زیادہ ہے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ آخر یہ زبردست دھماکا کس چیز کا تھا۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ ایک ’گیما رے دھماکا ‘ تھا۔ یہ دھماکا اس وقت ہوتا ہے جب قوی الجثہ ستارے اپنا ایندھن ختم کر ڈالنے کے بعد پھٹ پڑتے ہیں۔ اس سے زبردست توانائی خارج ہوتی ہے جو گیما شعاعوں کی شکل میں کائنات میں پھیل جاتی ہے۔ گیما رے دھماکا خاصے عام ہیں اور سوِفٹ عام طور پر ایک دن میں دو جھماکے ریکارڈ کرتا ہے۔ لیکن ناسا کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ دھماکا اتنا بڑا تھا کہ آج تک ایسی کوئی چیز ان کے مشاہدے میں نہیں آئی۔ اس دھماکے سے خارج ہونے والی توانائی کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ اس کے آس پاس اگر کسی سیّارے پر زندگی موجود ہوتی تو وہ جل کر راکھ ہو جاتی۔ لیکن خوش قسمتی سے یہ دھماکا زمین سے اتنی دور ہوا کہ اس کی شدت زمین تک پہنچتے پہنچتے ماند پڑ گئی۔
No comments:
Post a Comment