International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Tuesday, April 29, 2008
ججوں کی بحالی آسان نہیں ،آئینی پیکیج کے ذریعے ہو گی ،دوہفتوں میں نتیجہ آسکتا ہے ،زردار ی
کراچی : پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ججوں کی بحالی آسان نہیں قانون اور سارے معاملات دیکھنا ہونگے، یہ بحالی آئینی پیکیج کے ذریعے ہوگی اور اس حوالے سے دو ہفتوں میں نتیجہ آسکتا ہے، آئینی پیکیج عدلیہ میں اصلاحات کیلئے لایا جا رہا ہے، مجھے ججز کی بحالی نہیں بلکہ روٹی، کپڑا اور مکان کا مینڈیٹ ملا ہے، یہ کہنا درست نہیں کہ ہمیں ملنے والا مینڈیٹ وکلاء تحریک کے باعث ہے، کی بحالی کیلئے قراردار کس طرح لائی جائے اس پر بات کرنی ہے کیونکہ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے، موجودہ ججز کو ڈسٹرب کئے بغیر پرانے ججز بحال کئے جائیں گے، ہمیں سسٹم بدلنے کیلئے ووٹ ملے ہیں، آبادی بڑھ چکی ہے لہٰذا زیادہ ججز ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، اتحادی حکومت چلانا آسان کام نہیں، مسلم لیگ (ن) حکومت سے علیحدہ نہیں ہوگی، نواز شریف نہ مانے تو ان کے ساتھ تحریک میں شامل ہوجاؤں گا، صدر سے 58-2B کا اختیار واپس لینے کے حق میں ہوں، صدر بش کے بیانات اس بات کا مظہر ہیں کہ صدر بش ان کے پیچھے ہیں، صدر پرویز کی سیاست قوت مسلم لیگ (ق) ہے جس سے میرا کوئی رابطہ نہیں ہے، ڈاکٹر اے کیو خان ہمارا مسئلہ نہیں ہے، نہیں ہم نے گرفتار کیا ہے اور نہ ہم انہیں چھوڑیں گے، ہم نے ڈاکٹر اے کیو خان کا معاملہ صدارتی ہاؤس پر چھوڑ دیا ہے، میرے خیال میں بینظیر بھٹو کا پوسٹ مارٹم ہو اہے، لیکن رپورٹ کو چھپایا جا رہاہے، حالات صحیح ہوئے تو ڈاکٹروں سے اس معاملے میں پوچھیں گے، ان کے اسٹیٹمنٹ لیں گے، ہماری ترجیح گولی چلانے والے کو پکڑنا نہیں بلکہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے اصل ذمہ داروں کو بے نقاب کرنا ہے، تحقیقات اقوام متحدہ سے کرانا چاہتے ہیں، ضرورت پڑی تو گورنر سندھ کو ہٹایا بھی جا سکتا ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار پروگرام ”میرے مطابق“ میں بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ تفصیلات کے مطابق آصف زرداری نے کہا کہ معزول جج صاحبان کی بحالی کے حوالے سے دوستوں کو الٹی گنتی نہیں شروع کرنی چاہیے تھی، جج صاحبان کی بحالی کا معاملہ گھمبیر اور انتہائی اہمیت کا حامل ہے، صرف الٹی گنتی سے معزول جج بحال نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی مفاہمت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، میں ایم کیو ایم کے شہداء کے قبرستان میں گیا، میاں نواز شریف کے والد کی قبر پر حاضری دی اور یہ سارے اقدامات میں نے اپنے طور پر مفاہمت کی سیاست کو فروغ دینے کیلئے کئے، آج پاکستان کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے اور ان میں عدلیہ کا مسئلہ بھی شامل ہے۔ اگر میں نے یہ کہہ دیا کہ30 دن میں ججوں کو بحال کردیا جائے گا تو یہ پتھر پر لکیر نہیں، یہ ایک سیاسی بیان ہے جس کی تکمیل میں وقت درکار ہے لیکن میں نے اپنے بیان سے منحرف نہیں ہوا۔ ایک سوال کے جواب میں آصف زرداری نے کہا کہ جن وکلا اور شخصیات نے اپنی ٹانگیں اور ہاتھ تڑ وایا اس کو لوگوں نے ووٹ کیوں نہیں دیا ہمارے آنے سے قبل4 ماہ تک جو تحریک چلائی جارہی تھی تو وہ کیوں نہ ججز کو رہا کروا کر بحال کرواسکے، وہ تو پیپلز پارٹی کے وزیراعظم نے ایک جملہ کہا اور ججز بحال ہوگئے، کچھ انہیں سوچنا چاہئے ہم جمہوریت کی بحالی کیلئے تیار ہیں اور اسے بحال کرنے کی کوشش کررہے ہیں، پیپلز پارٹی کا اسٹیبلشمنٹ سے مقابلہ کرنیکا ایک طویل تجربہ ہے، کچھ دوستوں کو یہ تجربہ نہیں ہے، یہ بینظیر بھٹو کی کاوش ہے جس کے نتیجے میں یونیفارم اتری، جمہوریت آئی، یہ سب ہماری آمد سے ہوا۔ انہوں نے کہا کہ آپ تنقید کریں ہم برداشت کریں گے مگر اسے سیاسی حربے کے طور پر استعمال کیا گیا تو ہمیں بھی دفاع کا حق ہے، اب ہم کوئی چینل بند نہیں کرسکتے۔ زرداری نے کہا کہ گزشتہ8 سال تک یہی عدالتیں تھیں، گزشتہ 8 سال میں میرے مقدمات کے فیصلہ کیوں نہیں ہوئے، کیا یہ فیصلہ صحیح ہے کہ98 فیصد پاکستانی الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے کیوں کہ وہBA نہیں ہے جبکہ تعلیم یافتہ ملکوں میں یہ شرط نہیں، تو یہ ساری شقیں اس سسٹم کو بنانے کیلئے لائی گئیں جو جمہوریت کیلئے رکاوٹ تھیں۔ زرداری نے اپنے باقی مقدمات کے حوالے سے کہا کہ یہ تاریخ کا بڑا اہم باب ہے کہ جس بینچ میں بڑے پارسا جج بیٹھے ہوئے تھے، میرے وکیل نے اس وقت کہا کہ میرے موکل نے کوٹیکنا کیس میں سزا بھگت لی تو اس کو انصاف دیں تو انہوں نے مقدمہ واپس نیب کے حوالے کردیا۔ زرداری نے کہا کہ ججوں کی بحالی کیلئے ایگزیکٹو آرڈر پارلیمنٹ کی قرارداد کے ذریعے آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ ججوں کی بحالی آئینی پیکیج کے ساتھ منسلک ہوگی، ہم نے نظام بدلنا ہے ورنہ کیا جواز ہے کہ جاوید ہاشمی 5 سال جیل میں رہتے ہیں اور انہیں نہیں بلایا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح کا آئینی پیکیج میں چاہتا ہوں وہ ایوان زیریں اور ایوان بالا دونوں سے منظور ہوسکتا ہے، اس پر مسلم لیگ (ن) سے بھی بات ہوسکتی ہے، یہ تاثر درست نہیں کہ اس میں بہت زیادہ وقت لگے گا۔ اعتزاز احسن کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس کا فیصلہ پارٹی کرے گی کہ انہیں ٹکٹ دیا جائے یا نہیں۔ ٹکٹ دینا پارٹی چیئرمین کے اختیا رمیں نہیں، یہ پوری پارٹی کا اختیا رہے ۔ تاہم انہوں نے کہا کہ میری ذاتی رائے ہے کہ اعتزاز احسن پارلیمنٹ میں ہوں۔ آئینی پیکیج کی دونوں ایوانوں سے منظوری کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے زرداری نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ ایسی مفاہمت ہو جس سے ججز بھی واپس آجائیں اور کچھ ڈسٹرب بھی نہ ہو اور وکلاء اپنی پریکٹس شروع کریں۔ ایک سوال کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ یہ آئینی پیکیج پارلیمنٹ میں زیرغور آئے اور پھر آرڈر جاری ہو، کے جواب میں آصف زرداری نے کہا کہ یہ میری سوچ ہے، اتھارٹی میں نہیں بلکہ وزیر قانون ہیں اور میری اور وزیر قانون کی سوچ میں فرق ہوسکتا ہے، وزیر قانون مجھے بتائیں گے کہ قانونی طور پر کیا ہوسکتا ہے، عدلیہ کا بحران ہمیں ورثے میں ملا ہے، اگر آپ کو اس حوالے سے الٹی گنتی کی بات کرنی ہے تو اس کے پاس جائیں جس نے یہ کام کیا ہے، میرے پاس پاکستان بچانے، نظام بدلنے اور بینظیربھٹو کے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کرانے کا مینڈیٹ ہے اور میں یہ کام پورے کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ اس سوال پر کہ آپ نے بی بی سی کو انٹرویو میں کہا تھا کہ آپ وزیراعظم بننے کا موقع ملا میں بنوں گا اس پر آصف علی زرداری نے کہا کہ مجھے اگر بننا ہوتا تو میں پہلے وزیراعظم بن جاتا، مفاہمتی پیکیج لاتا اور پہلے یہ قانون بھی تھا کہ آپ پہلے وزیراعظم بن جائیں اور بعد میں الیکشن لڑیں، آپ کو یاد ہوگا کہ غوث علی شاہ کے واقعے میں ایسا ہوا ہے جو کہ اس وقت دستور کا حصہ نہیں لیکن بنایا جاسکتا ہے۔ آصف زرداری نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ گیلانی 5 سال تک بالکل وزیراعظم رہیں گے۔ الیکشن لڑنے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں زرداری نے کہا کہ میں نے الیکشن لڑنے کے لیے صوبہ سرحد، پنجاب اور لاڑکانہ سمیت 4 نشستوں پر درخواستیں دی ہیں۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment