International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Tuesday, April 29, 2008
ڈیڈ لائن: شرمندگی سے بچنے کیلئے شہباز شریف کو مذاکراتی ٹیم میں شامل کیا گیا
اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) نے 30اپریل کو ججوں کی بحالی کی ڈیڈ لائن گزرنے کی صورت میں سخت شرمندگی سے بچنے کے لئے مذاکراتی عمل میں اپنے کرشمہ ساز رہنما شہباز شریف کو شامل کیا ہے ۔ شہباز شریف کے متعلق عام تاثر یہ ہے کہ وہ کم غیر لچکدار اور زیادہ عملی شخصیت ہیں اور باہمی رضا مندی کا طریقہ اپناتے ہوئے مشکل ترین معاملات کو بھی حل کر لیتے ہیں جب کہ دوسری جانب نوازشریف اپنے موقف سے بالکل نہیں ہٹے اور وہ معزول ججوں کی بحالی کے موقف سے دستبرداری کے لئے بھی ہرگز تیار نہیں۔شہباز شریف کو مذاکراتی عمل میں اتحاد کو قائم رکھنے کے لئے شامل کیا گیا ہے ان کا سامنا آصف علی زرداری کے ساتھ ہے جو مذاکرات میں سخت گیر شخصیت متصور کئے جاتے ہیں اور آسانی سے قائل نہیں ہوتے ۔ زرداری یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اپنے اتحاد کو ٹوٹتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ ججوں کی بحالی کے معاملے پر اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں، اس سلسلہ میں مذاکرات کے متعدد دور ہو چکے ہیں حتیٰ کہ میاں نوازشریف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں بھی مسئلے کا کوئی متفقہ حل برآمد نہ ہو سکاتھا ۔ سمجھدار ایڈمنسٹریٹر اور دیگر کثیر الجہتی صلاحیتیں ہونے کے باوجود شہباز شریف کی بجائے درحقیقت اہم معاملات پر حتمی فیصلے میاں محمد نوازشریف ہی لیتے ہیں ۔ میاں شہباز شریف کو مذاکرات کے دوران زرداری کے موقف کو تسلیم کرنے تک کا اختیار دیا گیا ہے ، ڈیڈ لاک کا تعلق لازمی طور پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ، چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت ملازمت اور آئینی پیکیج کو ججوں کی بحالی سے منسلک کرنے یا نہ کرنے کے معاملات سے ہے ۔ پی پی پی مذکورہ آئینی پیکیج کو پارلیمینٹ میں پیش کرنے پر اصرار کررہی ہے یہ ”اب یا کبھی نہیں“ والی صورتحال ہے ۔ دبئی مذاکرات حکمران اتحاد کی بقاء ا ور خاتمے کے لئے انتہائی اہم متصور ہو رہے ہیں ۔ دونوں اطراف اتحا د کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتیں کیونکہ انھیں علم ہے کہ اگر ان کا اتحاد ناکام ہو گیا تو صدر پرویز مشرف مضبوط ہو جائیں گے ۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما نے دی نیوز کو بتایا کہ پی پی پی اور (ن) لیگ کے سربراہان کے دستخطوں کے بعد جاری ہونے والے اعلان مری کے مطابق ججوں کی فوری بحالی اور اگر ڈیڈ لائن تک جج بحال نہ ہوئے تو جس نامساعد صورتحال کا سامنا (ن) لیگ کو کرنا پڑے گا اس سے نمٹنے کے لئے باقاعدہ سوچ بچار کے بعد میاں شہباز شریف کو مذاکراتی ٹیم میں شامل کیا گیا ہے ۔ مذکورہ رہنما نے کہا کہ ہمیں اب وقت سے سخت مقابلہ کرنا ہو گا ، بصورت دیگر ہمیں سیاسی مخالفین کی تضحیک اور طعنوں کا نشانہ بننا پڑے گا کہ ہم معزول ججوں کو بحال نہیں کرا سکے۔ علاوہ ازیں عوامی سطح پر ہماری ساکھ بھی متاثر ہو گی ۔ رہنما نے مزید کہا کہ میاں نواز شریف نے (ن) لیگ کے مختلف رہنماؤں کے ساتھ مشاورت کے بعد میاں شہباز شریف کو دبئی بھجوایا ہے تاکہ آصف علی زرداری کے ساتھ ملاقات میں وہ سودمند طریقے سے کسی اتفاق رائے پر پہنچ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کی مخلصانہ کوشش ہوگی کہ کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے تحت جج بھی بحال ہو جائیں اور پی پی پی کے ساتھ (ن) لیگ کا اتحاد بھی برقرار رہے۔ اگرچہ (ن) لیگ کے رہنماؤں کی جانب سے یہ دھمکیاں جاری ہیں کہ اگر ڈیڈ لائن ختم ہونے تک جج بحال نہ ہوئے تو (ن) لیگ وفاقی کابینہ کی رکنیت چھوڑ دے گی لیکن زرداری اور نواز شریف دونوں سنجیدگی کے ساتھ کوشاں ہیں کہ ان کا اتحاد برقرار رہے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں شہباز شریف کی شمولیت مقررہ وقت کے اندر معزول ججوں کو بحال کرانے کے لئے ایک آخری بڑی کوشش ہے جبکہ ڈیڈ لائن تیزی سے خاتمے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم 30 اپریل تک ججوں کی بحالی کے لئے قومی اسمبلی میں ججوں کی بحالی کے لئے قرارداد بھی منظور نہ کر سکے تو ہمیں شدید سیاسی نقصان ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ (ن) لیگ کو اب کوئی شبہ نہیں ہے کہ دبئی مذاکرات میں اس مسئلے کا کوئی احسن حل تلاش کر لیا جائے گا۔ شہباز شریف کو مذاکراتی عمل میں شامل کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا گیا جب (ن) لیگ کی قیادت نے محسوس کیا کہ ان کے نمائندے پی پی پی کے نمائندوں کے ساتھ کسی اتفاق رائے پر پہنچنے کے قابل نظر نہیں آ رہے۔ شہباز شریف کو دبئی اس لئے پہنچایا گیا ہے کہ وہ مقررہ وقت پر ججوں کی بحالی سے متعلق اپنی پارٹی کے تحفظات، پریشانی اور سنجیدگی کو اجاگر کر سکیں اور یہ سمجھا سکیں کہ اگر جج بحال نہ ہوئے تو اعلان مری پر دستخط کرنے والی دونوں پارٹیوں کو سیاسی نقصان پہنچے گا جہاں ایک طرف مسلم لیگ (ن) مقرر کردہ ڈیڈ لائن کے اندر معزول ججوں کی بحالی کا سخت موقف اپنائے ہوئے ہے، وہاں دوسری جانب پیپلز پارٹی نے کبھی بھی اس موقف پر قائم رہنے کے بارے میں خاص دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا اور الٹی گنتی کو مسترد کر دیا ہے۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment