International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Tuesday, April 29, 2008

زرداری سے باؤچر اورپونٹے کی ملاقاتیں بے معنی نہیں رہیں

اسلام آباد : پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چےئرمین آصف علی زرداری کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ صدر پرویز سے تعلقات کار قائم کرنے کے اس معاہدے کے پابند ہیں جو بینظیر اور صدر پرویز مشرف کے مابین طے پایا تھا۔ بڑے پیمانے پر مذمت کا نشانہ بننے والی اس ڈیل کیلئے فریقین کو قریب لانے میں کردار ادا کرنیوالے پیپلزپارٹی کے ایک ایسے اہم ذریعے نے بتایا ہے کہ اس معاہدے میں واشنگٹن اور دبئی کے اہم ذمہ دارافراد عالمی ضامن کے طور پر موجود تھے۔تاہم پیپلزپارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے رابطہ کرنے پر اگرچہ یہ تو تسلیم کیا کہ موجودہ صورتحال لوگوں کے اذہان میں شبہات پیدا کر رہی ہے تاہم انہوں نے یقین دلایاکہ موجودہ صورتحال پر آخری ہنسی صدر پرویز کی نہیں ہوگی، انہوں نے اشارہ دیا کہ آئندہ چنددن انتہائی اہم ہیں اورانہوں نے کہا کہ غیر ملکی بھی ملک میں بدلتی ہوئی صورتحال کی خاطر اپنے ذہن تبدیل کر لیتے ہیں۔ عمو ماً یہ خیال کیاجاتا ہے اور تصدیق کی جاتی ہے کہ ہماری تاریخ کے متنازع ترین قانون” نیشنل ری کنسی لی ایشن آرڈیننس اسی ڈیل کا حصہ ہے جو کہ صدر پرویز ے دوسری مرتبہ عہدہ صدارت پر منتخب ہونے کے وقت کی تھی۔این آر او کا اجراء 5 اکتوبر 2007 کو کیا گیا تھاجبکہ صدارتی انتخابات 6 اکتوبر کو ہوئے تھے۔ فرحت اللہ بابر کا موقف ہے کہ اس وقت این آر او کے تحت صدر پرویز سے لین دین کیلئے عمومی بات چیت کی جارہی تھی۔ انکا خیال تھا کہ صدر پرویز نے یہ محسوس کرلینے کے بعد سابق حکمران جوڑے کا کسی بدعنوانی سے کوئی تعلق نہیں، این آر او جاری کر کے دراصل پیپلز پارٹی سے کچھ رعایتیں حاصل کرنے کی کوششیں کیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ یہی بات ذہن میں رکھتے ہوئے وہ بینظیر بھٹو کے پاس گئے اور ان سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔اس پربینظیرنے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس طرح کیوں سوچتے ہیں، کیا ایسا ہوسکتا ہے ؟ میں اپنی اب تک طویل جدوجہد کی جدوجہد سے انحراف کرکے پر ویز مشرف کو وردی مین کیسے قول کر سکتی ہوں؟ادھر فرحت اللہ بابرکے دعوے کے متضاد پیپلزپارٹی کے ذریعے نے بتایا کہ بی بی این آر او کے اجراء کی خواہاں تھیں اور انہوں نے موجودہ وزیر قانون فاروق اے نائیک سے حکومت کی مشاورت کے ذریعے این آر او کا مسودہ مرتب کیا تھا۔ البتہ فر حت اللہ بابر کا موقف تھا کہ این آر او سے سب سے زیادہ فائدہ ایم کیوایم کو پہنچا۔پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا تھاکہ پیپلزپارٹی کے تحفظات محض صدر پرویز تک محدودتھے اور انکا تعلق سویلین صدر پرویز مشرف سے نہیں تھا۔غیر ملکی ضامنوں کی آشیر باد سے پیپلزپارٹی نے صدر پرویز کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کیلئے کام شروع کر دیا ہے ، ذریعے نے بتایا کہ پیپلزپارٹی کی موجودہ سیاست کا این آر او اور اسکی شرائط سے گہرا تعلق ہے ۔پاکستان مسلم لیگ(نواز) تو پرویز مشرف کو ایوان صدرسے نکالنے کیلئے مری جارہی ہے لیکن جہاں تک پیپلزپارٹی کا تعلق ہے تو اس نے ایوان صد کے ساتھ تعلقات استوا ر کرلئے ہیں، حکمراں اتحاد میں شامل دو اہم فریقین نے کئی مرتبہ صدر پرویز کے مواخذے کے معاملے پر غور کیا ہے لیکن آصف علی زرداری بظاہر نظام بچانے کی خا طر اس معاملے پر زیادہ پرجوش نہیں ہیں لیکن بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ معاملات اسی طرح سے سامنے آرہے ہیں جس طرح معاملات رونما ہورہے ہیں وہ گزشتہ برس طے پانے والے معاملات کی طرح ہیں ۔باوجود اس کے کہ این آر او پاکستان کی تاریخ کا متنازع ترین قانون تھا لیکن تین نومبر کے مارشل لاء(ایمرجنسی )اور بعد ازاں بینظیر بھٹو کے انتقال کے بعد این آر او کھڈے لائن لگ گیا، پچھلی عدلیہ نے این آر او کے خلاف حکم امتناع جاری کیا تھا،تاہم تین نومبر کے بعد کی عدلیہ نے تو اسکے آپریشن پر عائد عدالتی پابندیاں بھی ختم کر دی ہیں ، یہ این آر او کی برکت ہی ہے جس کے باعث آصف زرداری کے خلاف غیرملکی عدالتوں تک میں دائر کیسز واپس لے لئے گئے۔پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کیلئے جو چیز سب سے زیادہ نا قابل ہضم ہے وہ پیپلزپارٹی کی قیادت میں بننے والی حکومت میں صدر پرویز مشرف کے دور کے اہم کھلاڑیوں کو برقرر رکھنا ہے ، ان سب میں سب سے نمایاں اٹارنی جنرل ملک قیوم ہیں اور یہ وہی ہیں جنہوں نے محض چند دن قبل پھر یہ کہا ہے کہ قومی اسمبلی کی قرارداد کے ذریعے ججوں کو بحال نہیں کیاجاسکتا اور یہ حکمراں اتحاد کے دو بڑے پارٹنرز پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(نواز) کے وعدوں کے خلاف ہے۔اٹارنی جنرل کو تبدیل کرنا وزیر اعظم کا اختیار ہے لیکن ابھی تک ایسا کرنا ممکن نہیں ہو پایا۔ یہ کہا جارہا ہے کہ پیپلزپارٹی کے معاون چےئر مین اپنے خلاف تمام کیسز کے خاتمے تک انہیں برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں،صدر پرویز مشرف کے دوست میجر جنرل محمود درانی کو وزیر اعظم کا مشیر برائے قومی سلامتی بنانے پر تو پیپلزپارٹی کے اندر بھی سوالات ابھر رہے ہیں۔پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کو اس امر پر بھی حیرت ہے کہ آخر تمام اہم اسامیوں پر فوجی حکمراں کی جانب سے کی گئی تعیناتیوں پر نظر ثانی کیوں نہیں کی جارہی ہیں۔پیپلزپارٹی کے رہنما اور عوام کا اتفاق ہے کہ وزیر اعظم کے دفتر میں اور کابینہ میں شامل وزارء کے چہرے تبدیل ہونے کے باوجود اسلام آباد میں معاملات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، صدر پرویز مشرف جن کے بارے میں توقع کی جارہی تھی کہ وہ 18 فروری کے بعد کسی بھی وقت مستعفی ہوسکتے ہیں وہ اب اپنا اعتماد بحال کررہے ہیں اور آئندہ پانچ برس تک ایوان صدر میں قیام کے عزم کا اظہار کر رہے ہیں ، ان کی حمایت میں یورپی یونین کی خارجہ امور کے سیکرٹری جنرل ہاوےئر سولانا بھی کہہ چکے ہیں کہ صدر پرویز آئندہ پانچ برس یک اپنے عہدے پر کام کرتے رہیں گے۔ کراچی کے ایک بڑے صحافی کا کہنا ہے کہ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے دواہم رہنماؤں باؤچر اور نیگروپونٹے کا دورہ پاکستان میں زرداری سے ملاقاتیں بے معنی نہیں رہیں،انہوں نے مزید کہا کہ محض اس امر کو نوٹ کیاجائے کہ زرداری ان چندمہینوں میں میں امریکی سفیر سے کتنی ملاقاتیں کرچکے ہیں اور پھر زرداری کے لئے بین الاقوامی ضامنوں کی موجودگی میں طے پانے والے چند ماہ پیشتر کے سمجھوتوں کو نظر انداز کر نا آسان نہیں ہوگا۔

No comments: