International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Tuesday, April 29, 2008
صدرکی خواہش گندم گوادرکے ذریعے درآمد کی جائے،آٹے کا بحران ہوگیا
اسلام آباد: ہزاروں میل دور گوادر بندرگاہ کے ذریعے گندم درآمد کرنے کی صدر پرویز مشرف کی ”ذاتی خواہش“ نے ملک میں آٹے کے بحران کو مزید شدید کر دیا۔ اس خواہش کے باعث بلوچستان کے دور دراز علاقے سے لاکھوں ڈالر کی درآمدی کنسائنمنٹ پنجاب اور ملک کے ان علاقوں میں جہاں گندم کی قلت موجود تھی، بروقت پہنچانے میں تاخیر ہوئی۔ کہا جا رہا ہے کہ طاقتور صدر کی ذاتی خواہش نے ملک میں پہلے سے جاری گندم کے بحران کو مزید گھمبیر کر دیا کیونکہ گوادر میں نئی بندرگاہ پر ابھی تک بڑی کھیپوں کو جہازوں سے تیزی کے ساتھ ان لوڈ کرنے کی جدید سہولیات دستیاب نہیں ہیں اور کیونکہ جو بحری جہاز گندم کی کھیپ لے کر گوادر پہنچا تھا وہ بندرگاہ سے کافی فاصلے پر کھڑا تھا یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ درآمدی گندم کو جہاز سے ان لوڈ کرنے پر جو لاگت آئی اس نے گندم کی قیمت میں بھی مزید اضافہ کر دیا جبکہ گندم درآمد کرتے وقت یہ موقف اپنایا گیا تھا کہ گوادر کی بندرگاہ پر کھیپ کو ان لوڈ کرنے کا خرچ کراچی پورٹ کی نسبت کم ہو گا۔ اعلیٰ سطحی ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ 80ہزار ٹن گندم خاموشی سے گوادر کے راستے درآمد کی گئی جس کا مقصد صدر پرویز کی اس خواہش کو پورا کرنا تھا کہ متعلقہ وزارت بندرگاہ کے ذریعے اشیاء کی باقاعدہ درآمد کے لئے یہ جائزہ لے کہ نئی بندرگاہ پر آپریشن کی صورتحال کیسی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ گوادر کے راستے گندم درآمد کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہاں پر کھیپ کو ان لوڈ کرنے کی لاگت کراچی پورٹ کی نسبت 10ڈالر فی ٹن کم آ رہی تھی۔ متعلقہ افسران نے سوچا کہ صدر مشرف کی خواہش کو پورا کرنے کا یہ بہترین موقع ہے کیونکہ کم قیمت گندم کا بہانہ موجود ہے۔ تاہم ذرائع نے بتایا کہ یہ ایڈونچر ہمیں بہت مہنگا پڑا کیونکہ جب درآمدی کھیپ گوادر پہنچی تو یہ مسئلہ کھڑا ہو گیا کہ اسے ملک کے دور دراز علاقوں تک جہاں گندم کی قلت ہے کیسے پہنچایا جائے۔وزارت زراعت کے ایک افسر نے بھی رابطہ کرنے پر تصدیق کی کہ صدر پرویز کی خواہش پر گوادر کے راستے 80 ہزار ٹن گندم درآمد کی گئی۔ تاہم ”دی نیوز“ سے گفتگو کرتے ہوئے صدر پرویز مشرف کے ترجمان نے کہا کہ انہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے کہ صدر مشرف نے کبھی گوادر کی بندرگاہ کے ذریعے گندم درآمد کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ دریں اثناء ذرائع نے کہا کہ صدر مشرف کی جانب سے گندم کی درآمد یا برآمد کے سلسلے میں مداخلت کا یہ پہلا واقعہ نہیں جس کے نتیجے میں ملک میں گندم کا شدید بحران پیدا ہوا۔ پہلی مرتبہ شوکت عزیز نے انہیں ملک میں گندم کی پیداوار سے متعلق غلط اعدادوشمار فراہم کرکے 50 ہزار ٹن گندم برآمد کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ ملک میں گندم کی پیداوار 20 لاکھ ٹن کم تھی لیکن شوکت عزیز نے اپنی کارکردگی کا شور مچانے کیلئے پیداوار کو کاغذوں میں 20 لاکھ ٹن زیادہ دکھا دیا۔ اپنے ہاتھوں وزیراعظم بنائے گئے شوکت عزیز کی ذہانت اور ان کی فراہم کردہ اطلاعات پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے مشرف نتائج جانے بغیر پرجوش ہوگئے اور گندم درآمد کرلی گئی۔ گندم کو 200 ڈالر فی ٹن کے انتہائی ارزاں نرخوں پر برآمد کیا گیا لیکن جلد ہی نگران حکومت قائم ہوگئی اور یہ بات سامنے آگئی کہ ملکی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے وافر گندم موجود نہیں ہے۔ حتیٰ کہ مقامی ضروریات کیلئے دستیاب گندم بھی شوکت عزیز نے برآمد کردی۔ نتیجتاً ملک کو 60 ارب روپے کی گندم روس، کینیڈا اور امریکہ سے درآمد کرنی پڑی۔ جو گندم 200 ڈالر فی ٹن کے ریٹ پر برآمد کی گئی تھی اسے 500 ڈالر فی ٹن ریٹ پر درآمد کرنا پڑا۔ رواں سال جنوری میں جب صدر مشرف نے برطانیہ کا دورہ کیا تو ان سے جھوٹے اعدادوشمار دکھانے کیلئے شوکت عزیز کی جانب سے گندم برآمد کرنے کی غلط پالیسی پر سوال کیا گیا جس پر صدر پرویزمشرف نے گندم برآمد کرنے کی پالیسی کا دفاع کرنے کیلئے طویل وقت صرف کیا اور بعدازاں اس پالیسی کے باعث گندم کے بحران نے جنم لیا۔ باعث دلچسپی بات یہ ہے کہ اب صدر مشرف نے ایک بار پھر گوادر کے ذریعے گندم کی درآمد کا فیصلہ کیا جب ملک گندم کی قلت کے باعث شدید متاثر ہورہا تھا۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment