سترہویں ترمیم کی منظوری میں تعاون کرنے پر ہمیں طعنے دینے والی جماعتیں آج اسے ختم نہیں کر رہیںمعزول چیف جسٹس سمیت ججوں کی بحالی کے لئے دو بڑوں کے درمیان جنگ لڑی جا رہی ہے ،اتحاد کو خطرہ ہےافتخار محمد چوہدری وہ چیف جسٹس ہیں جنہوں نے دو دفعہ بے ضرر حسبہ بل کو مسترد کیااور دینی اسناد پر منتخب نمائندوں کو نا اہل قرار دیاججوں کی بحالی میں میثاق جمہوریت کو مد نظر رکھا جائے،جب ججوں کا معاملہ ان کے سامنے آئے گا تو اس پر سوچ بچار کی جائے گی،پشاور میں خطاب
پشاو ر۔ جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر اور سابق قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمان نے اتحادی جماعتوں کو متنبہ کیا ہے کہ اٹھاون دو بی ختم کرنے کی صورت میں صدر مشرف کی جانب سے بی باون طیارے کے استعمال ہونے کو رد نہیں کیا جا سکتا ۔ہمیں ہر قدم کو احتیاط کے ساتھ اٹھا کر آگے بڑھنا ہو گا ۔سترہویں ترمیم کا طعنہ دینے والی جماعتیں آج خود اقتدار میں ہیں مگر وہ دو تہائی اکثریت رکھنے کے باوجود سترہویں ترمیم کو ختم کرنے کے لئے تیار نہیں اور وہ اس کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں ۔اب ان جماعتوں کا موقف ہے کہ اگر سترہویں ترمیم کو ختم کیاگیا تو اٹھارہ سال کے ووٹر ،خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں اور نئی حلقہ بندیوں کا کیا بنے گا ۔ہمارے سامنے بھی یہ ترجیحات تھیں اس لئے سترہویں ترمیم کی منظوری میں تعاون کیا ۔وہ پشاور کے محکمہ اوقاف کے مولانا حسین جان شہید ہال میں جمعیت علماء اسلام صوبہ سرحد کے زیر اہتمام علماء کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے ۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آج دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)کے درمیان عدلیہ کی آزادی اور معزول ججوں کی بحالی پر لڑائی لڑی جا رہی ہے ۔ایک جماعت کے نزدیک معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کو عدلیہ کی بحالی تصور کیا جا رہا ہے اور آج ضیاء الحق کی یاد کو تازہ کیاجا رہا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جو ان کو تسلیم کرتے ہیں وہ اسلام چاہتے ہیں اور جو ان کو تسلیم نہیں کرتے وہ اسلام نہیں چاہتے آج وہی صورتحال بن رہی ہے اور اگر افتخار محمد چوہدری بحال ہو جاتے ہیں تو اس کو عدلیہ کی آزادی تصور کیا جا رہا ہے مگر حقائق اس کے برعکس ہیں ۔ادارے شخصیات کے محتاج نہیں تاہم ان کے نزدیک شخصیات کا احترام ہے ۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگر معزول ججوں کو بحال کرنا ہے تو میثاق جمہوریت کو سامنے رکھا جائے جس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)نے چودہ مئی 2006ء کو دستخط کئے ہیں اس میثاق جمہوریت میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ ججوں کی تقرری پارلیمنٹ کے ارکان پر مشتمل ایک کمیشن کرے گا اور ایسے ججوں کی نامزدگی نہیں کی جائے گی جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف لیا ہو اور عدلیہ میں ایسے جج لئے جائیں گے جنہوں نے کبھی بھی پی سی او کے تحت حلف نہ لیا ہو موجودہ معزول چیف جسٹس اور ججوں نے میاں محمد نواز شریف کی حکومت ختم ہونے کے بعد صدر مشرف کے پی سی او کے تحت 2001ء میں حلف لیا تھا ۔اگر ججوں کو بحال کرنا ہے تو میثاق جمہوریت کو سامنے رکھا جائے ۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ججوں کی بحالی پر جو جنگ لڑی جا رہی ہے اس سے اتحاد کو خطرہ ہے اعلان مری کے ساتھ ساتھ میثاق جمہوریت پر بھی عمل درآمد کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ انتخابات سے قبل تمام سیاسی جماعتوں کے اپنے منشور اور ایجنڈے تھے اب جمہوری قوتیں متحد ہوئی ہیں اور ان کی مخلوط حکومت بنی ہے لہذا ہمیں اپنے ذاتی ایجنڈے کو بالائے طاق رکھ کر آگے بڑھنا ہو گا اور ہمیں یکجہتی اور لچک دکھانی ہو گی تاکہ اس یکجہتی کو برقرار رکھا جا سکے ۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اب ججوں کی بحالی کا معاملہ دو بڑوں کے درمیان ہے جب معاملہ ان کے پاس آئے گا تو اس پر سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا جائے گا ۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ معزول ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ نے ایم ایم اے کو ڈسا ہے ۔یہی سپریم کورٹ تھی جس نے بے ضرر حسبہ بل کو دو دفعہ مسترد کیا اور اس کے خلاف پٹیشن منظور کی ۔ایک دفعہ صدر مشرف نے خود حسبہ بل کے خلاف پٹیشن دائر کی ۔انہوں نے کہا کہ یہ وہی سپریم کورٹ ہے جس نے ایم ایم اے سے تعلق رکھنے والے منتخب ناظمین اور نائب ناظمین کی دینی اسناد پر کامیابی کو ناکامی میں تبدیل کر کے دینی اسناد پر کامیاب ہونے والوں کو نا اہل قرار دیا ۔انہوں نے کہا کہ یہ وہی سپریم کورٹ ہے جس کے سامنے قومی اسمبلی اور سینٹ کے ارکان کی دینی اسناد کا معاملہ لایاگیا اور وہی سپریم کورٹ ایم ایم اے سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کو بارہ مارچ کو نا اہل قرار دینے والی تھی مگر نو مارچ کو چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس آیا جس کے باعث معاملہ لٹک گیا اور فیصلہ نہیں ہوا ۔جب چیف جسٹس بحال ہوئے تو وہ دوبارہ دینی اسناد پر کامیاب ہونے والے ارکان پارلیمنٹ کو نا اہل قرار دینے والے تھے مگر تین نومبر کو ججوں کو گھر بجھوا دیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ تمام اختلافات کے باوجود جب نو مارچ کو چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بجھوایاگیا تو جمعیت علماء اسلام کے قائدین اور کارکن سڑکوں پر نکل آئے اور چیف جسٹس کا ساتھ دیا ۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ عام انتخابات کا قاضی حسین احمد کی جانب سے بائیکاٹ کا فیصلہ غلط ثابت ہوا کیونکہ بائیکاٹ کے باوجود عوام نے اس پر توجہ نہیں دی اور انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے اس کے نتیجے میں قاضی حسین احمد نہ احتجاج کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ ہے ۔ان کے بائیکاٹ کے باعث ایم ایم اے کو نقصان پہنچا یہی وجہ ہے کہ عام انتخابات میں جمعیت علماء اسلام کے 35امیدوار چند سو ووٹوں پر کامیابی سے محروم رہ گئے ۔اگر قاضی حسین احمد بائیکاٹ نہ کرتے تو صوبے میں دوبارہ متحدہ مجلس عمل کی حکومت بن جاتی ۔انہوں نے کہا کہ صوبہ سرحد میں بائیس نشستوں پر ہمارے امیدواروں دوسرے نمبر پر آئے ۔اب صوبہ سرحد میں جمعیت علماء اسلام ایک مضبوط قوت بن کر مد مقابل آگئی اور اب صوبہ سرحد میں یا جمعیت علماء اسلام کی حکومت ہو گی یا مخالف جماعتوں کی ۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ قومی حکومت کی حمایت کا فیصلہ مشاورت کے بعد کیاگیا اور حکومت میں شامل ہونے سے قبل ہم نے اپنی ترجیحات آصف علی زرداری کے سامنے رکھ دیں جن میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو اسمبلی میں پیش کرنا،خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا،صوبوں کو صوبائی خود مختاری دینا،مذہبی رہنماؤں کی رہائی،لال مسجد اور جامعہ حفصہ سمیت تمام ترجیحات ان کے سامنے رکھ کر حکومت میں شمولیت اختیار کی ۔اب ہماری شمولیت کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ مولانا حکومت سے باہر نہیں رہ سکتے ۔انہوں نے کہا کہ جب قومی اسمبلی میں اسفندیار ولی خان نے اختر مینگل اور بخش مری کی رہائی کی بات کی اور جب انہوں نے موقف اختیار کیا کہ اگر امریکہ سے بات چیت ہو سکتی ہے تو اختر مینگل سے بات چیت کیوں نہیں ہو سکتی تو اس دوران میں نے موقف اختیار کیا کہ اگر امریکہ سے بات ہو سکتی ہے اور اختر مینگل سے مذاکرات کئے جا سکتے ہیں تو مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کیوں نہیں کیے جا سکتے ۔انہوں نے کہا کہ ہماری مفاہمت کی وجہ سے مذہبی رہنماؤں کی رہائی عمل میں لائی گئی اور لائی جا رہی ہے مگر اس کا کریڈٹ جمعیت علماء اسلام کو نہیں دیا جا رہا ہے بلکہ صوبائی حکومت میں شامل ایک جماعت اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہی ہے ۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جب صوفی محمد کو رہا کیا جا رہا تھا تو اسی وقت ایجنسیوں نے ویڈیو ٹیپ ریلیز کی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ افغانستان میں پاکستان کے سفیر طارق عزیز الدین کو اس وقت رہا کیا جائے گا جب صوفی محمد ،مولانا عبد العزیز اور بے نظیر قتل کیس میں ملوث ملزمان کو رہا نہیں کیا جا تا ۔صوفی محمد کی رہائی کے کریڈٹ کو جے یو آئی کو نہیں دیا گیا بلکہ اس ویڈیو ٹیپ کے ذریعے ہمارے کریڈٹ کو ضائع کرنے کی کوشش کی گئی ۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ عام انتخابات سے قبل اسمبلیوں سے استعفے دینے کا فیصلہ غلط تھا اور استعفوں کے مسئلے پر ہمارا موقف درست ثابت ہوا ۔مگر استعفوں کے معاملے کو بھی جمعیت علماء اسلام کے خلاف منفی پروپیگندے کے طور پر استعمال کیاگیا ۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہماری موثر حکمت عملی اور مضبوط موقف کی وجہ سے عسکریت پسندوں سے مذاکرات کئے گئے اور کئے جا رہے ہیں ۔اسمبلی کے فلور پر ان کا موقف تھا کہ طاقت سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا لہذا مذاکرات کی راہ اپنائی جائے ان کے موقف کو تسلیم کیاگیا جس کے نتیجے میں مذاکرات کئے گئے اور دونوں جانب سے مذاکرات کا خیر مقدم کیاگیا جب سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت تھی تو اس وقت جب ہم مذاکرات کی بات کرتے تھے تو ان کے خلاف یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا تھا کہ عسکریت پسندوں کو مضبوط کیا جا رہا ہے اب موجودہ حکومت میں مذاکرات کو اولیت دی گئی اور موقف اختیار کیا جا رہا ہے کہ گولی سے مسائل حل نہیں ہوتے لہذا مذاکرات اور جرگے کئے جا رہے ہیں ۔جب ہم جرگے اور مذاکرات کی بات کرتے تھے تو ہم پر الزامات کی بوچھاڑ کی گئی اب جب وہ خود جرگے اور مذاکرات کر رہے ہیں تو اس کو مفاہمت کا نام دیا جا رہا ہے ۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہمارے خلاف منفی پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اور ہم نے امریکہ پر بھی یہ واضح کر دیا ہے کہ طاقت سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا لہذا مفاہمت اور مذاکرات کی راہ اپنائی جائے ۔جب ہم نے جنوبی ،شمالی وزیرستان اور سوات میں مذاکرات کئے اور جب ہم نے موقف اختیار کیا کہ فوج کو واپس بلایا جائے تو اس کو ہمارے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیاگیا اور ہماری کردار کشی کی گئی ۔آج ہمارے موقف کو اپنایا جا رہا ہے ۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جب ہم نے موقف اختیار کیا کہ خود کش حملوں کی روش ترک کرنی چاہیے کیونکہ اس سے مذہبی قوتوں اور اسلام کو نقصان پہنچ رہا ہے تو اس کو بھی ہمارے خلاف استعمال کیاگیا اور انتخابات میں ہمارے خلاف سازشیں شروع ہوئیں ۔انہوں نے کہا کہ عالمی استعماریت کی ہم مذمت کرتے ہیں اور ہم امریکہ پر یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی سوچ بدل دے اور طاقت سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے کبھی بھی جہاد سے انکار نہیں کیا اور جہاد سے انکار دائرہ اسلام سے خارج ہونے کے سوا کچھ نہیں مگر ہمارے خلاف ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پروپیگنڈہ کیا گیا کہ جے یو آئی جہاد کے خلاف ہے ۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آج علاقائی اور مقامی جنگیں نہیں لڑی جا رہی ہیں بلکہ اب عالمی جنگیں لڑی جا رہی ہیں ۔امریکہ سے لیکر جے ایچ کیو اور اسٹیبلشمنٹ تک سب ایک ہیں اور سب علماء کے خلاف بد اعتمادی پیدا کر رہے ہیں ۔علماء کے اچھے کاموں کو چھپایا جا رہا ہے جبکہ ان کی کمزوریوں کو اچھالا جا رہا ہے ۔آج کتنے لوگ پہاڑوں میں بندوق لیکر لڑ رہے ہیں ۔ان لوگوں سے مذاکرات کر کے ان سے ہتھیار پھینکنے کی بات کی جا سکتی ہے ۔جو لوگ جام شہادت نوش کرتے ہیں ان کو دہشت گرد کہا جا رہا ہے انگریزوں کے دور میں بھی مجاہدین کو شر پسند اور دہشت گرد کے نام دیئے جاتے رہے ۔انہوں نے کہا کہ آج دینا کی سپر طاقت اور مغربی قوتوں کو سب سے زیادہ خطرہ دینی مدارس سے ہے اور وہ طالبان کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں ۔کسی زمانے میں یہ دینی مدارس اور ان طلباء کی ان کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں تھی اور دو سو سال قبل وہ ان کو کچھ نہیں سمجھتے تھے ۔آج وہ اپنے لئے خطرہ سمجھ رہے ہیں ۔
No comments:
Post a Comment