International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Wednesday, April 30, 2008

عدلیہ کی بحالی کی آئین میں گنجائش موجود ہے، حفیظ پیرزادہ

کراچی : قومی اسمبلی سے منظور کردہ قرارداد یا ایگزیکٹوآرڈر کے ذریعے معزول ججوں کی بحالی اور 3 نومبر کے اقدامات کی منسوخی سراسر غیر آئینی ہوگی تاہم عدلیہ کی بحالی کی آئین میں گنجائش موجود ہے۔ ان خیا لات کا اظہارملک کے ممتاز ماہرِ آئین اور سینئر قانون دان عبد الحفیظ پیر زادہ نےپروگر ام میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر سپریم کورٹ بار کے سابق صدر منیر اے ملک نے کہا کہ چیف جسٹس سے مشورہ کئے بغیر ججوں کی تقرری درست نہیں۔تفصیلات کے مطابق حفیظ پیرزادہ نے کہا یہ مقاصد آئین میں ترمیم کیے بغیر حاصل نہیں کیے جا سکتے۔عبدا لحفیظ پیر زادہ نے کہا کہ آئین سے انحراف کرکے ہم وفاق کے دو ستونوں عدلیہ اور پارلیمنٹ کو نظر انداز کر دیں گے۔ایمرجنسی کے غیرآئینی اقدامات کو ایک دوسرے غیر آئینی ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعہ کالعدم قرار دینا درست نہ ہوگا۔ججوں کی بحالی یا ایمرجنسی اقدامات کی منسوخی سپریم کورٹ یا پارلیمنٹ کا کا م ہے۔انھوں نے کہا کہ اگر آپ انتظامیہ یا وزیر اعظم کو یہ اختیا ر دے دیتے ہیں کہ وہ قومی اسمبلی کی ساد ہ قرارداد کے ذریعے ایگزیکٹو آرڈر جاری کرے تو اس سے آئین کے اندر طاقت کی تثلیث(Tricotiny of Power)ختم ہو جائے گی ۔یہ ایگزیکٹو آرڈر پارلیمنٹ کا قانون سازی کا ہی نہیں عدلیہ کے اختیارات بھی سلب کرلے گا۔کل کو کوئی اور انتظامیہ آکر ایگزیکٹو آرڈر جاری کر سکتی ہے کہ عدلیہ کی چھٹی کر دی جائے۔عبداالحفیظ پیر زادہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ عدالتِ عظمیٰ یا پارلیمنٹ کے دونوں ایوان دوتہائی اکثریت سے آئینی ترمیم کے ذریعے ہی ججوں کو بحال یا 3 نومبر کے اقدام منسو خ کرسکتے ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ مجھے اس بات پر سخت تشویش ہے کہ اس وقت یہ کہا جا رہا ہے کہ صرف قومی اسمبلی ایک قراداد منظور کرے اور اس میں انتظامیہ کو کہے کہ آپ ایگزیکٹو آرڈر جاری کریں۔ایک سوال کے جواب میں ممتاز قانون دان نے کہاکہ عدلیہ کی 3 نومبر کی حیثیت پر بحالی کی گنجائش آئین میں موجود ہے اور یہ مقصد قومی اسمبلی اور سینیٹ آئین میں ترمیم کر کے حاصل کر سکتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ 1993 میں اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں قرارداد منظور کروا کے کہا تھا کہ میاں اظہر لاہور کے ایڈمنسٹریٹر ہوں گے۔اس پرلاہور ہائی کورٹ نے اس قرارداد اور اس عمل کو بالارادہ روکا تھا ۔اس وقت عدالت میں مَیں بھی پیش ہوا تھا۔موجودہ اٹارنی جنرل اور اس وقت جج ملک عبدالقیوم نے کہا کہ تھا کہ اس قرارداد کو منظور کرتے وقت آئین کے تقاضے پورے نہیں ہوئے ہیں۔سپریم کورٹ بار کے سابق صدر منیر اے ملک نے اس موضوع پر عبدالحفیظ پیر زادہ سے اختلاف کرتے ہوئے کہاکہ ہمار اموقف ہے کہ انتظامیہ ایک غیرقانونی آرڈر کو دوسرے غیر قانونی آرڈر سے واپس لے سکتی ہے۔انھوں نے کہا کہ5 سابق چیف جسٹس آف پاکستان اورسپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے 32 ریٹائرڈ جج صاحبان بھی ہمارے موقف کی تائید کرتے ہیں۔منیراے ملک نے مزید کہا کہ چیف جسٹس سے مشورے کے بغیر ججوں کی تقرری قانونا درست نہیں۔

No comments: