International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Wednesday, April 30, 2008

سینیٹ:وسیم سجاد کو بولنے کی اجازت نہ ملنے پر اپوزیشن کا واک آؤٹ

اسلام آباد : مسلم لیگ ق اور اس کے اتحادیوں پر مشتمل سینٹ میں اپوزیشن نے منگل کو ایوان بالا میں سابق قائد ایوان وسیم سجاد کو پاکستانی روپے کی قدر میں کمی سے متعلق توجہ مبذول کر انے کے نوٹس پر بولنے کی اجازت نہ ملنے پر نئی حکومت میں اپنا پہلا احتجاجی واک آؤٹ کیا۔ تاہم اے پی ڈی ایم پر مشتمل آزاد اپوزیشن کے ارکان نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ ایوان بالا میں قائد ایوان رضا ربانی اور قائد حزب اختلاف کامل علی آغا کے درمیان جھڑپ اور تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، حکومت اپوزیشن کے قائدین کے درمیان تلخ کلامی کے دوران ایوان میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ نوٹس کے محرکین میں کامل علی آغا اور طاہر حسین مشہدی شامل تھے ،تاہم وسیم سجاد بھی اس معاملے پر بات کر نا چاہتے تھے۔ رضا ربانی نے کہا کہ محرکین کے علاوہ کوئی اور کیسے بول سکتا ہے یہی روایت چلی آ رہی ہے اور قواعد و ضوابط کا بھی یہی تقاضا ہے۔ اس پر کامل علی آغا نے ایوان میں ہنگامہ کھڑا کر دیا اور کہا کہ ایسے ایوان نہیں چلا سکتا جمہوری انداز میں کاروائی چل سکتی ہے ۔ رضا ربانی نے کہا کہ یہ کس منہ سے جمہوریت کی بات کر رہے ہیں یہ تو جنرل مشرف کو سپورٹ کر تے آ رہے ہیں کامل علی آغا نے کہا ہے کہ ایوان چلانا ان کے رویوں پر منحصر ہے ہم تیار ہیں اس دوران ایوان کی کاروائی معطل ہو کر رہ گئی بعدازں اپوزیشن جماعتیں ایوان سے واک آؤٹ کر گئیں۔ ڈپٹی چیئر مین جان محمد جمالی نے بھی اپوزیشن کا ساتھ دیا بعد ازاں رضا ربانی اسحاق ڈار کے منانے پر اپوزیشن جماعتیں ایوان میں آ گئیں اور وسیم سجاد نے توجہ مبذول کرائے کے نوٹس پر اظہار خیال کیا ۔ دریں اثناء حکومتی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر الیاس احمد بلور بھی صوبہ سرحد میں گندم کے بحران پر سینٹ میں بولنے کی اجازت نہ ملنے پر ایوان بالا سے واک آؤٹ کر گئے۔ الیاس احمد بلور نکتہ اعتراض کے لئے کھڑے ہوئے تو چیئر مین سینٹ نے کہا کہ وہ فہرست کے مطابق نکتہ اعتراض لیں گے جس پر الیاس احمد بلور نے ایوان میں احتجاج کیا اور ایوان سے واک آؤٹ کر گئے ۔ دریں اثناء وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سینٹ کو بتایا کہ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے پاکستان کی معیشت پر شدید دباؤ ہے ۔ صورت حال اسی طرح رہی تو زرمبادلہ کے ذخائر ساڑھے دس ارب ڈالر کی سطح پر پہنچنے کا خدشہ ہے ۔سابقہ حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ میں آئل سبسڈی کیلئے 15ارب روپے رکھی جبکہ اس سال 55ارب روپے سبسڈی دینا ہو گی ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سینٹ میں توجہ مبذول کرانے کے نوٹس کا جواب دیتے ہوئے کیا ۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ اس معاملے پر حقائق کے منافی بات کی گئی ہے ۔ سینیٹر سید طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ الزامات عائد کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے ۔ افراط زر پڑھنے کی وجہ سے پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی آرہی ہے ۔ عوام کی قوت خرید کمزور ہو رہی ہے ۔ ڈالر کے ایکس چینج ریٹ پر اجارہ داری ہے۔ وسائل امیروں کے لئے ہیں غریب لوگ خود کشی کررہے ہیں۔ اربوں روپے پر تعیش سہولتوں اڑا دئیے جاتے ہیں چند ہزار روپے کے قرضہ کی وصولی کے لئے لوگوں کو تنگ کیا جاتا ہے۔

No comments: